چین کی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک کی جانب سے امریکی AI قیادت کو چیلنج

مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں ایک نیا چیلنجر

مصنوعی ذہانت (AI) کے میدان میں ایک دلچسپ مقابلہ جاری ہے، جہاں ایک طرف امریکہ اپنے “سٹار گیٹ” پروجیکٹ اور 500 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ عالمی AI لیڈر بننے کی کوشش کر رہا ہے، وہیں دوسری طرف ایک چینی اسٹارٹ اپ، ڈیپ سیک، کم وسائل کے ساتھ ایک مضبوط چیلنجر کے طور پر ابھرا ہے۔ یہ صورتحال ایک ڈیوڈ بمقابلہ گولیتھ کی کہانی کی طرح ہے، جہاں ایک چھوٹا کھلاڑی بڑے کھلاڑی کو چیلنج کر رہا ہے۔

ڈیپ سیک کی حیرت انگیز پیش رفت

ہانگ زو میں قائم ڈیپ سیک نے حال ہی میں اوپن سورس AI ماڈلز کا ایک سلسلہ جاری کیا ہے، جو نہ صرف اوپن اے آئی کے ماڈلز کے برابر ہیں بلکہ بعض صورتوں میں ان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ انہوں نے بہت کم لاگت اور حیرت انگیز کارکردگی کے ساتھ حاصل کیا ہے۔ اس پیش رفت نے AI کمیونٹی میں ہلچل مچا دی ہے اور امریکہ کی حکمت عملی اور AI غلبہ کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔

AI مارکیٹ میں تبدیلی

AI مارکیٹ میں اس وقت چند بڑے کھلاڑیوں کا غلبہ ہے، جن میں سے زیادہ تر امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان کمپنیوں کے پاس وافر فنڈنگ اور وسائل موجود ہیں، اور وہ AI جدت طرازی میں سب سے آگے رہی ہیں۔ تاہم، ڈیپ سیک کا ابھرنا اس صورتحال میں تبدیلی کا اشارہ ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کم وسائل کے ساتھ بھی شاندار AI تیار کی جا سکتی ہے۔

ڈیپ سیک کا R1 ماڈل

ڈیپ سیک کا R1 ماڈل اس تبدیلی کی ایک بہترین مثال ہے۔ کمپنی کے مطابق، یہ ماڈل اوپن اے آئی کے o1 ماڈل کے برابر ہے اور بعض صورتوں میں اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ R1 ماڈل کو پیچیدہ استدلال اور ریاضی کے مسائل حل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس ماڈل کا اوپن سورس ہونا اور عوام کے لیے آسانی سے دستیاب ہونا اس کے اثرات کو مزید بڑھاتا ہے، جس سے دنیا بھر کے محققین اور ڈویلپرز اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

کم لاگت، زیادہ کارکردگی

ڈیپ سیک کی کامیابی اس وقت اور بھی حیرت انگیز لگتی ہے جب اس کے پاس موجود وسائل کو دیکھا جائے۔ کمپنی کے V3 بڑے لسانی ماڈل کو تربیت دینے میں صرف 5.6 ملین ڈالر کی کمپیوٹنگ پاور استعمال ہوئی، جبکہ اوپن اے آئی کے GPT-4 کو تربیت دینے میں 100 ملین ڈالر سے زیادہ خرچ ہوئے تھے۔ ڈیپ سیک کے V3 ماڈل نے اوپن اے آئی اور اینتھروپک کے ماڈلز کے مقابلے میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

چین کی AI حکمت عملی

ڈیپ سیک کا چین کے مسابقتی AI سیکٹر میں ابھرنا کوئی اتفاق نہیں ہے۔ کمپنی کے 40 سالہ بانی، لیانگ وینفینگ نے حال ہی میں چینی وزیر اعظم لی کیانگ سے ملاقات کی، جس سے ڈیپ سیک کی کامیابی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ یہ ملاقات چین کی تکنیکی جدت طرازی اور AI کے میدان میں اس کی خواہشات کو ظاہر کرتی ہے۔

ڈیپ سیک کی بنیاد

ڈیپ سیک کی بنیاد ہائی فلائر نامی ایک چینی کوانٹیٹیٹو ہیج فنڈ سے جڑی ہوئی ہے، جس کے پاس 2019 تک تقریباً 1.4 بلین ڈالر کے اثاثے تھے۔ ہائی فلائر نے 2023 میں ڈیپ سیک کو ایک وقف AI اسٹارٹ اپ کے طور پر الگ کر دیا۔ لیانگ وینفینگ، جو کہ ژی جیانگ یونیورسٹی سے AI میں تعلیم یافتہ ہیں، نے ہائی فلائر کی مالی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے 2022 میں امریکی پابندیوں سے پہلے ہزاروں Nvidia AI چپس حاصل کیں۔ اس حکمت عملی نے ڈیپ سیک کو دیگر AI اسٹارٹ اپس پر برتری دلائی۔

ڈیپ سیک کی کارکردگی

اگرچہ ماہرین کی ڈیپ سیک کی کارکردگی کے بارے میں مختلف آراء ہیں، لیکن عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ڈیپ سیک کے ماڈلز مخصوص ہارڈویئر کنفیگریشنز میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ڈیپ سیک کی توجہ کارکردگی کو بہتر بنانے اور لاگت کو کم کرنے پر مرکوز ہے۔ اس کا “مکسچر آف ایکسپرٹس” ماڈل اس کی ایک مثال ہے۔

اوپن سورس ماڈلز

ڈیپ سیک کے ماڈلز کی ایک اور اہم خصوصیت ان کا اوپن سورس ہونا ہے۔ یہ ماڈلز مختلف ہارڈویئر پلیٹ فارمز پر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ ڈیپ سیک کے ماڈلز شفافیت فراہم کرتے ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنے جوابات تک کیسے پہنچتے ہیں۔ یہ شفافیت ان صارفین کے لیے ایک اہم فروخت کنندہ ہے جو کم لاگت والے AI حل تلاش کر رہے ہیں۔

امریکی خدشات

امریکہ کو چین کی AI میں پیش رفت پر تشویش ہے۔ امریکی حکومت نے 2022 سے جدید AI چپس پر برآمدی کنٹرول کے ذریعے چین کی AI ترقی کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ ان پابندیوں کے باوجود، چینی AI کمپنیاں متبادل حکمت عملیوں کی تلاش میں ہیں۔ کچھ کمپنیاں امریکی ساختہ چپس پر انحصار کر رہی ہیں جو پابندیوں سے پہلے درآمد کی گئی تھیں، جبکہ کچھ تیسرے فریق کے مقامات سے چپس کی اسمگلنگ کر رہی ہیں۔

چین کا AI ایکو سسٹم

ان چیلنجوں کے باوجود، چین نے ایک مضبوط AI ایکو سسٹم تیار کیا ہے۔ بیدو، علی بابا اور بائٹ ڈانس جیسی بڑی ٹیک کمپنیاں اپنے بنیادی ماڈلز تیار کر رہی ہیں اور AI پر مبنی خدمات پیش کر رہی ہیں۔ منی میکس اور مون شاٹ AI جیسے چینی AI اسٹارٹ اپس نے صارفین پر مبنی خدمات شروع کی ہیں جو امریکی مارکیٹ میں بھی کامیاب ہوئی ہیں۔

قیمتوں کی جنگ

چینی AI سیکٹر میں شدید مقابلے کی وجہ سے قیمتوں کی جنگ شروع ہو گئی ہے، جہاں کمپنیاں مسابقتی برتری حاصل کرنے کے لیے 2024 میں قیمتوں میں 90% تک کمی کر رہی ہیں۔ یہ قیمتوں کی جنگ چینی AI سیکٹر کی وسائل مندی اور موافقت پذیری کو ظاہر کرتی ہے۔

امریکی ردعمل

امریکہ چین کی AI میں کامیابیوں سے پریشان ہے، کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ AI میں امریکی قیادت کو بچانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کام نہیں کر رہے۔ سابق گوگل سی ای او ایرک شمٹ نے چین کی پیش رفت پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ اوپن اے آئی نے بھی چین کی AI ترقی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔

سٹار گیٹ پروجیکٹ

ان خدشات کے جواب میں، اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹمین، سافٹ بینک کے سی ای او ماسایوشی سن اور اوریکل کے شریک بانی لیری ایلیسن نے سٹار گیٹ پروجیکٹ کا اعلان کیا ہے، جس میں امریکہ میں AI انفراسٹرکچر میں 500 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ یہ پروجیکٹ AI کے میدان میں اپنی قیادت کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کے عزم کا واضح اشارہ ہے۔

اختتامیہ

ڈیپ سیک جیسی کمپنیوں کا ابھرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ AI غلبہ کا راستہ صرف بڑی رقم کی سرمایہ کاری سے ہموار نہیں ہوتا۔ جدت طرازی، موافقت پذیری اور محدود وسائل کے ساتھ کامیابیاں حاصل کرنے کی صلاحیت موجودہ AI منظر نامے میں ایک اہم عنصر ہے۔ AI کی دوڑ جاری ہے، اور دنیا یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ امریکہ اور چین ان پیچیدہ چیلنجوں سے کیسے نمٹتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ٹیکنالوجی اور عالمی طاقت کی حرکیات کے مستقبل کے لیے دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔