ملائیشیا کے AI عزائم، امریکہ-چین تکنیکی مقابلہ

ملائیشیا کی مصنوعی ذہانت (AI) کی خواہشات پر امریکہ اور چین کی تکنیکی محاذ آرائی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ہواوے ٹیکنالوجیز کے ساتھ AI کے شعبے میں تعاون سے متعلق ایک نائب وزیر کے حالیہ بیان نے اس نازک صورتحال کو مزید عیاں کر دیا ہے جس سے ملائیشیا کو اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ملائیشیا کے اس نازک توازن کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔

ابتدائی اعلان اور پھر پسپائی

نائب وزیر برائے مواصلات، تیو نی چینگ نے ملائیشیا میں ایک جامع AI ایکو سسٹم کے آغاز کا اعلان کیا۔ اس منصوبے کو خطے میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ قرار دیا گیا تھا جس میں چین سے باہر ہواوے کے جدید چپس ਅਤੇ سرورز اور ڈیپ سیک لارج لینگویج ماڈل (DeepSeek large language model) کا استعمال کیا جانا تھا۔ اس اشتراک کو ملائیشیا کی جانب سے AI انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا گیا تھا۔

تاہم، یہ جوش و خروش زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق تیو نی چینگ نے ہواوے سے متعلق اپنے بیان کو واپس لے لیا، لیکن اس اچانک تبدیلی کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ اس غیر متوقع پسپائی نے منصوبے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا اور اس بات پر بھی خدشات پیدا ہوگئے کہ حکومت کے فیصلے پر کن عوامل کا اثر ہے۔

اس بے یقینی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب ہواوے کے ایک نمائندے نے کہا کہ ان کی کمپنی نے ملائیشیا میں ایسنڈ چپس (Ascend chips) فروخت نہیں کیے ہیں اور نہ ہی حکومت نے کوئی خریداری کی ہے۔ اس بیان نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا اور مجوزہ تعاون کی نوعیت اور حد کے بارے میں قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔

امریکہ کے برآمدی کنٹرول سے متعلق خدشات

ہواوے سے متعلق اعلان کی پسپائی ایڈوانسڈ AI چپس پر امریکی برآمدی کنٹرول کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات کے ساتھ ہوئی۔ امریکی محکمہ تجارت نے حال ہی میں رہنما اصول جاری کیے تھے جن میں کمپنیوں کو خبردار किया گیا تھا کہ ہواوے کے ایسنڈ چپس کے استعمال سے وہ ان کنٹرولز کی خلاف ورزی کے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔

ان رہنما اصولوں نے اس بات کو واضح ਕੀਤਾ کہ امریکی حکومت چین کو جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی کو روکنے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے، خاص طور پر AI جیسے شعبوں میں، جہاں وہ اپنی مسابقتی برتری برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ امریکہ کے خدشات ان ٹیکنالوجیز کے ممکنہ استعمال سے متعلق ہیں جو چین کی عسکری صلاحیتوں کو بڑھانے اور AI کے میدان میں امریکی غلبے کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

حکومت کی وضاحت

ہواوے کے اعلان کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازع کے جواب میں، وزارت سرمایہ کاری، تجارت اور صنعت نے حکومت کی پوزیشن واضح करते ہوئے ایک بیان जारी کیا۔ मंत्रालय ने जोर देकर कहा कि स्काईवेस्ट (Skyvast)، एक मलयेशियाई कंपनी, और हुआवे की भागीदारी वाले AI इंफ्रास्ट्रक्चर पहल एक "निजी तौर पर संचालित" प्रयास था।

مزید یہ کہا گیا کہ یہ اقدام ملائیشیا کی حکومت کی جانب سے تیار، توثیق یا مربوط نہیں کیا गया था اور نہ ہی یہ کسی حکومتی معاہدے یا قومی سطح پر لازمی قرار दी टेक्नोलॉजी प्रोग्राम का हिस्सा था। اس وضاحت کا مقصد حکومت کو اس منصوبے سے دور رکھنا اور अमेरिकी निर्यात नियंत्रण के संभावित उल्लंघन के बारे में चिंताओं को कम करना था।

وزارت نے تمام قابل اطلاق निर्यात नियंत्रण कानूनों, राष्ट्रीय सुरक्षा निर्देशों और वैश्विक नियामक प्राधिकरणों سے ابھرنے والی رہنما ہدایات کی مکمل تعمیل کے لیے ملائیشیا کے عزم کی دوبارہ تصدیق کی۔ اس کے साथ साथ, ملائیشیا نے राष्ट्रीय हितों के अनुरूप अपनी नीतियां बनाने के संप्रभु अधिकार का भी दावा किया।

امریکی جائزہ اور AI "اسٹیک"

ہواوے کے ابتدائی اعلان نے امریکی حکام کی توجہ مبذول کرائی، جن میں ڈیوڈ سیکس (David Sacks) بھی शामिल تھے، جو ٹرمپ انتظامیہ کے دوران AI اور क्रिप्टो اسپیس میں ایک نمایاں شخصیت تھے۔ سیکس (Sacks) نے اس معاہدے کے बारे में एक रिपोर्ट को दोबारा पोस्ट किया और AI में अमेरिकी प्रतिस्पर्धा में संभावित निहितार्थوں के बारे में चिंता व्यक्त की।

سیکس (Sacks) کے تبصروں نے AI "اسٹیک" کے تصور کو اجاگر کیا، جو AI ایپلی کیشنز બનાવવા, تربیت دینے, تعینات کرنے اور ان کا انتظام करने کے لیے درکار ٹولز, ٹیکنالوجیز اور فریم ورکس (frameworks) کا ایک مجموعہ ہے۔ تشویش यह थी कि "مکمل چینی اسٹیک" پر انحصار امریکی AI ٹیکنالوجیز کی تخلیق اور اپنانے کو کمزور کر سکتا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے حال ही میں AI डिफ्यूजन रूल्स (AI diffusion rule) کو منسوخ کر دیا تھا، جسے بائیڈن انتظامیہ نے لانچ کیا تھا और اس سے AI چپس حاصل کرنے والے ممالک के लिए एक्सेस के विभिन्न स्तर पैदा होते। اس اصول کی منسوخی نے جدید AI टेक्नोलॉजी की निर्यात पर कड़ी روک برقرار रखने के लिए अमेरिकी सरकार के दृढ़ संकल्प की نمائंदगी की।

اطلاعات के अनुसार, अमेरिका AI چپس کی برآمد کے قوانین میں اصلاح करने का लक्ष्य रखता है, जिसका उद्देश्य अमेरिकी AI हार्डवेयर को پوری دنیا میں بہتر بنانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ दक्षिण पूर्व एशिया या मध्य पूर्व में डेटा सेंटर बनाने वाली कंपनियों को चीनी विकल्पों की ओर मोड़ने से روکने के लिए सुरक्षा उपाय लागू करना भी है।

ملائیشیا کے डेटा सेंटर से संबंधित عزائم اور غیر قانونی چپ فلو

ملائیشیا ڈیٹا سینٹر ڈویلپمنٹ کے ایک مرکز کے طور پر ابھرا ہے، 특히 جوہور کی جنوبی ریاست میں۔ گذشتہ 18 مہینوں میں ریاست نے NVIDIA, Microsoft और ByteDance जैसी कंपनियों से महत्वपूर्ण निवेश حاصل किया है, یہ ساری کمپنیاں اس علاقے میں ڈیٹا سینٹرز स्थापित करने کے درپے ہیں۔

تاہم, ملائیشیا को गैर कानूनी चिप फ्लो से संबंधित चुनौतियों का भी सामना کرنا پڑا ہے۔ اس سال کے آغاز में, सिंगापुर ने मलेशिया के माध्यम से चीन में Nvidia चिप्स की कथित बिक्री से जुड़े एक धोखाधड़ी के मामले में तीन लोगों पर आरोप लगाया। اس واقعہ نے اس صلاحیت کو اجاگر کیا کہ ملائیشیا کو چین کے لیے تیار کی جانے والی حساس ٹیکنالوجی کے لیے ایک ترسیلی مقام کے طور پر इस्तेमाल کیا جا سکتا ہے۔

अमेरिकी सरकार ने तीसरे देशों के माध्यम से चीन को उन्नत एनवीडिया (Nvidia) चिप्स की अवैध खेपों पर रोक लगाने का संकल्प किया है, اور حکام نے خاص طور पर मलेशिया को یک تشویشناک क्षेत्र کے طور پر شناخت کیا ہے۔ अमेरिका ने मलेशिया से एन्विडिया (Nvidia) चिप्स की खेपों की निगरानी کرنے کی درخواست کی है تا کہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ انہیں غیر مجاز مقامات پر منتقل نہیں کیا जा رہا ہے۔

ملائیشیا के وزیر برائے سرمایہ کاری, تجارت और صنعت, ტენგკუ ზافرول აზიზი نے بین الاقوامی سپلائی چینز کے ذریعے سیمی کنڈکٹرز کو ٹریک ਕਰਨ کی دشواریوں کا اعتراف کیا, जिनमें متعدد فریق شامل ہیں, जिनमें چپ بنانے والی کمپنیاں, سپلائرز اور ڈسٹری بیوٹرز شامل ہیں۔

широким Америка-चीन AI रेस

ملائیشیا का हुआवे (Huawei) के साथ AI सहयोग کا تنازع آمریکا اور چین کے درمیان ہونے والی مسابقتی AI ریس کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ दोनों ممالک AI ریسرچ اور ڈیولپمنٹ میں بھرپور سرمایہ کاری کر رہے ہیں, جس کا مقصد اس اہم ٹیکنالوجی میں مسابقتی برتری حاصل کرنا ہے۔

وائٹ ہاؤس (White House) نے حال ہی میں سعودی عرب کو سیکڑوں ہزاروں AI چپس بھیجنے کے معاہدوں کا اعلان کیا ہے, in چیپس کا ایک نمایاں حصہ హ్యూమائن کو جائے گا, एक AI اسٹارٹ اپ ہے जिसे سعودی عرب کے خود مختار دولت فنڈ نے شروع کیا ہے۔ اس اقدام سے AI میدان میں شراکت داری کو مضبوط بنانے اور چین کے расту влияние का मुकाबला करने के लिए امریکی सरकार کی کوششوں کی عکاسی होती है।

ہواوے (Huawei) کے एसेन्ड (Ascend) چپس استعمال کرنے वाली فرموں के खिलाफ अमेरिकी انتباہات के जवाब में, بیجنگ (Beijing) نے अमेरिका پر "عام یکطرفہ بدمعاشی اور تحفظ پسندی" का आरोप लगाया ہے, جن کے مطابق اس طرح کے اقدامات عالمی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری چین اور سپلائی چین के استحکام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

एक जटिल परिदृश्य पर नेविगेट کرنا

ملائیشیا खुद کو एक मुश्किल स्थिति में पाता है, کیونکہ وہ ٹیکنالوجی سیکٹر میں अमेरिका اور چین کے متضاد مفادات کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ یہ ملک اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور عوامی خدمات کو بہتر बनाने के लिए AI کا استعمال کرنا چاہتا है, ولكن उसे निर्यात नियंत्रण और भू-राजनैतिक विचारों के जटिल जाल में भी नेविगेट करना होगा।

ہواوے کے اعلان سے متعلق واقعہ ملائیشیا को اپنے ٹیکنالوجی پارٹنرشپس (partnerships) کے مضمرات کا بغور جائزہ لینے اور تمام قابل اطلاق ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنانے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاری को आकर्षित करने کی اپنی خواہش और अपनी संप्रभुता बनाए रखने और अपने राष्ट्रीय हितों को पूरा करने की अपनी प्रतिबद्धता के बीच एक संतुलन भी स्थापित کرنا होगा।

جس طرح امریکہ और چین کے درمیان AI रेस تیز ہو रही है, ملائیشیا کو इस जटिल परिदृश्य में नेविगेट करने کے لیے ایک واضح اور مستقل حکمت عملی तैयार करने کی ضرورت ہوگی۔ اس حکمت عملی میں شفافیت, जवाबदेही और بین الاقوامی اصولوں اور معیارات کی پابندی کو ترجیح देनी چاہیے۔ ایسا करके, ملائیشیا भू-राजनैतिक तनावों سے منسلک خطرات को कम करते हुए AI کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ کر سکتا ہے۔

ملائیشیائی حکومت کو کسی بھی تکنیکی تعاون کے ممکنہ نتائج پر احتیاط سے غور کرنا ہوگا, اور بین الاقوامی ضوابط کی تعمیل اور قومی مفادات کے साथ गठबंधन सुनिश्चित करने के लिए गहन जांच पड़ताल और जोखिम का मूल्यांकन करना होगा। ملائیشیا کو امریکہ اور چین دونوں के ساتھ فعال طور پر مشغول रहना चाहिए, کھلے مواصلات को فروغ देना चाहिए اور باہمی લાભ کے حل શોધنے چاہئیں۔ ایک غیر جانبدارانہ موقف برقرار رکھتے ہوئے اور تعاون کو فروغ دیتے ہوئے, ملائیشیا 자신 को वैश्विक AI इको सिस्टम में एक भरोसेमंद भागीदार کے طور پر स्थापित कर सकता है। گھریلو AI సామర్థ్యوں में निवेश کرنا بھی ملائیشیا کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ غیر ملکی ٹیکنالوجیز پر اپنی انحصار کو کم کرے اور اپنی सीमाओं کے اندر جدت طرازی को فروغ دے سکے۔ اس ਵਿੱਚ местные اسٹارٹ اپس کو سپورٹ کرنا, ریسیرچ और ڈیولوپمنٹ کو فروغ دینا, اور AI से متعلقہ شعبوں میں ہنرمند افرادی قوت تیار کرنا شامل ਹੋ سکتا ہے۔

یہ واقعہ اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی, भू-রাজনैतिकी, اور اقتصادی ترقی کے ربط की یاد دہانی का کام करता ہے۔ जिस तरह پوری دنیا میں ممالک AI کی تبدیلی آور طاقت इस्तेमाल کرنے کی کوشش کرتے ہیں, उन्हें संभावित नुकसान और चुनौतियों से भी آگاہ رہنا چاہیے جو اس کے ساتھ آتی ہیں۔ ملائیشیا کا تجربہ دوسری قوموں کے لیے قیمتی سبق پیش کرتا ہے, جو امریکہ اور چین کی تکنیکی دشمنی کی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے مصنوعی ذہانت کے دور میں اپنے لیے راستے تلاش کرنا چاہتے ہیں۔

آگے بڑھتے हुए ملائیشیا کو ترجیح देनी चाहिए:

  • شفافیت اور ڈیو ڈیلی جنس: بین الاقوامی ضوابط کی تعمیل اور قومی مفادات کے اعتبار سے تمام ٹیکنالوجی پارٹنرشپس (Partnerships) کا مکمل جائزہ ਲਿਆ ਜਾਣਾ ਚਾਹੀਦਾ ਹੈ।
  • غیر جانبداری اور تعاون: امریکہ اور چین બંને के ساتھ مشغول ہوں, खुले संप्रेषण کو فروغ دیں اور باہمی طور پر فائدہ مند حل تلاش کریں۔
  • گھریلو AI क्षमताएँ: غیر ملکی ٹیکنالوجیز پر انحصار کم करने اور अपनी सीमाओं के اندر جدت طرازی کو فروغ دینے کے لیے مقامی آغاز اپس(startups), انڈسٹری ریسیرچ اور ڈیولوپمنٹ اور ملازمتوں کے فروغ میں سرمایہ کاری کریں۔
  • سٹریٹجک منصوبہ بندی: AI ریس کے پیچیدہ भू-राजनैतिक منظر نامے میں नेविगेटکرنے کے لیے ایک واضح اور مستقل حکمت عملی ڈیولپ کریں, شفافیت, جوابدہی اور بین الاقوامی اصولوں اور معیارات کی پابندی کو ترجیح دیں۔

ملائیشیا ان اصولوں کو اپنا کر امریکہ اور چین کی تکنیکی دشمنی کی پیچیدگی سے نبٹ सकता ہے اور خود کو عالمی AI سطح پر ایک معروف کھلاڑی کے طور پر محفوظ بنا سکتا ہے۔

इसके अलावा, यह घटना मलائیشियाई सरकार के भीतर स्पष्ट संचार और समन्वय کے اہم اثرات को उजागर करता है। مختلف سرکاری حکام کے متضاد بیانات نے مغالطے اور अनिश्चितता پیدا کی, جس سے सार्वजनिक اعتماد کو نقصان پہنچا और ممکنہ طور पर قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر ملائیشिया کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ مستقبل میں اسی طرح کی صورتحال سے بچنے के लिए, सरकार को संवेदनशील तकनीकी मामलों के बारे में संवाद करने के लिए स्पष्ट प्रोटोकॉल स्थापित करना चाहिए اور یہ सुनिश्चित करना चाहिए कि सभी अधिकारी पूरी तरह से सूचित हैं और प्रमुख नीतिगत पदों पर सहयोगी हैं।

آخر میں, یہ معاملہ ملائیشیا کے لیے ਆਪਣੇ سائبر سیکورٹی دفاع کو مضبوط بنانے کی ضرورت کو اجاگر करता है। जिस तरह देश डिजिटल तकनीकों پر تیزی سے انحصار کر رہا ہے, साइبر حملوں اور جاسوسی کا شکار ہو سکتا ہے۔ सरकार کو اپنے اہم انفراسٹرکچر اور حساس ڈیٹا کو نقصان پہنچانے والے اداکاروں سے بچانے کے لیے جدید سائبر سیکورٹی انفراسٹرکچر اور تربیت میں سرمایہ لگانا چاہیے۔

ان چیلنجوں سے نمٹنے ਅਤੇ ऊपर बताए गए سفارشات کو لاگو करके ملائیشیا امریکہ اور چین کی تکنیکی دشمنی سے وابستہ خطرات کو کم کر ਸਕਦਾ ہے اور यह सुनिश्चित कर सकता है कि वह अपनी AI خواہشات کو ذمے داری اور پائیدار طریقے سے پورا کرتا رہے۔