چین کے اے آئی کی پیش رفت: ڈیپ سیک اوپن اے آئی اور گوگل کو للکارتا ہے
چین کی مصنوعی ذہانت کی کمپنی ڈیپ سیک کی جانب سے اپنے فلیگ شپ لسانی ماڈل R1 میں اہم اپ گریڈ کا اعلان بلاشبہ اس شعبے کے بڑے ناموں جیسا کے اوپن اے آئی اور گوگل سے مقابلے کو تیز کرے گا۔ ڈیپ سیک-R1-0528 کے نئے ورژن کو اوپن اے آئی کے o3 اور گوگل کے جیمنی 2.5 پرو کا براہ راست مد مقابل رکھا گیا ہے، اور بنچ مارک کے نتائج اور تکنیکی بہتری سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے چین میں AI کس قدر تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ڈیپ سیک کی جانب سے HuggingFace پر ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ "اس کی مجموعی کارکردگی اب O3 اور Gemini 2.5 Pro جیسے معروف ماڈلز کے قریب پہنچ رہی ہے۔"
کلیدی بہتری اور کارکردگی میں اضافہ
ڈیپ سیک کی جانب سے کی جانے والی حالیہ اپ ڈیٹس کا بنیادی محور استدلالی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے، اور اس کا سہرا شمارندی وسائل میں اضافے اور جدید بعد از تربیت الگورتھم کی آپٹیمائزیشن کو جاتا ہے۔ کمپنی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، R1-0528 نے مشکل استدلالی کاموں میں درستگی کی شرح میں ابتدائی ایڈیشن کے 70% کے مقابلے میں 87.5% تک جست لگائی ہے، اور اس نمایاں اضافے کا بنیادی سبب استدلال کو مزید گہرا کرنا اور فی سوال پروسیس کیے جانے والے ٹوکنز کی مقدار میں ڈرامائی اضافہ ہے۔
خاص طور پر اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کے ماڈل کی جانب سے غلط بیانی یا گمراہ کن معلومات پیدا کرنے کے واقعات میں %50 تک کمی واقع ہوئی ہے – AI کی جانب سے غلط بیانی کے واقعات کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے – اور اس کے ساتھ ہی حساب، کوڈنگ، اور عمومی منطق میں اس کی صلاحیتیں نمایاں طور پر بہتر ہوئی ہیں۔ ڈیپ سیک کی جانب سے کوڈنگ کی معاونت میں اضافے خاص طور پر فنکشن کالنگ کی بہتری اور زیادہ مربوط "وائب کوڈنگ" کے تجربے پر بھی زور دیا گیا ہے، یہ ایک ایسا فیچر ہے جس میں ڈویلپرز کوڈ بنانے کے لیے ڈائیلاگ پر مبنی اشارے استعمال کر کے کوڈ تیار کرتے ہیں۔
ڈیپ سیک کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابی اتفاقی نہیں ہے، بلکہ غور و فکر سے تیار کی گئی حکمت عملی اور تکنیکی اختراع کا نتیجہ ہے۔ استدلالی صلاحیتوں میں اضافے کے تناظر میں بات کی جائے تو ڈیپ سیک نے نہ صرف شمارندی وسائل میں اضافہ کیا ہے بلکہ معلومات کی پروسیسنگ اور تجزیہ کے لیے پیچیدہ الگورتھم بھی متعارف کروائے ہیں۔ اس دو رخی حکمت عملی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کے ماڈل نہ صرف زیادہ سے زیادہ ڈیٹا کو ہینڈل کرنے کے قابل ہے بلکہ اس ڈیٹا کو استدلال اور فیصلہ سازی کے لیے زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کر سکتا ہے۔
R1-0528 کی جانب سے مختلف کلیدی شعبوں میں کارکردگی میں اضافہ اس امر کا مظہر ہے کے یہ مشکل کاموں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ریاضی کی صلاحیتوں میں بہتری کا مطلب یہ ہے کے یہ ماڈل اعداد و شمار اور فارمولوں سے منسلک سوالات کو حل کرنے میں زیادہ درست اور قابل بھروسہ ہے۔ کوڈنگ کی صلاحیتوں میں اضافہ ڈویلپرز کے لیے سافٹ ویئر کی ترقی کی رفتار اور معیار کو بڑھاتے ہوئے کوڈ تیار کرنا اور اسے بہتر بنانا آسان بناتا ہے۔ اسی طرح عمومی منطق کی صلاحیتوں میں بہتری کا مطلب یہ ہے کے ماڈل مختلف قسم کے استدلالی مسائل کو حل کرنے میں زیادہ لچکدار اور مطابقت پذیر ہے۔
اس کے علاوہ، ڈیپ سیک کی جانب سے ماڈل کی جانب سے کوڈنگ کے کاموں کو سرانجام دینے کی صلاحیتوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ فنکشن کالنگ کو بہتر بنانے اور "وائب کوڈنگ" کے تجربے کو بڑھانے کے ذریعے، ڈیپ سیک نے ڈویلپرز کے لیے ماڈل کے ساتھ قدرتی طور پر بات چیت کرنا اور ڈائیلاگ کے اشارے کے ذریعے کوڈ تیار کرنا ممکن بنایا ہے۔ یہ طریقہ نہ صرف کوڈنگ کے عمل کو آسان بناتا ہے بلکہ ڈویلپرز کو گرامر اور کوڈ کی ساخت کی پیچیدگیوں میں الجھے بغیر مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ڈیپ سیک کی جانب سے کی جانے والی ان بہتریوں نے نہ صرف ماڈل کی کارکردگی کو بہتر بنایا ہے بلکہ اسے مختلف ایپلی کیشنز میں استعمال کرنے اور انضمام کرنے میں بھی آسان بنایا ہے۔ بلاشبہ اس سے AI ٹیکنالوجی کی مقبولیت اور اطلاق میں مدد ملے گی اور اس کے ساتھ متعدد صنعتوں کے لیے جدت اور ترقی کے مزید مواقع میسر آئیں گے۔
اوپن سورس فوائد اور مارکیٹ پر اثر
اوپن اے آئی اور گوگل کے کلوزڈ سورس ماڈلز کے برخلاف، ڈیپ سیک نے اپنے ماڈل کے وزن عوام کے لیے جاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، اور اوپن سورس طریقہ کار پر سختی سے کاربند ہے، جس کی وجہ سے ڈیولپرز کی کمیونٹی میں اس کی پذیرائی بڑھی ہے۔ R1-0528 ماڈل اب 685 بلین پیرامیٹرز کا حامل ہے اور MIT کے لچکدار لائسنس کے تحت استعمال کے لیے دستیاب ہے، جو کہ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال اور وسیع پیمانے پر اپنانے کی اجازت دیتا ہے۔
ڈیپ سیک نے R1-0528 کا ایک لائٹ ورژن بھی متعارف کرایا ہے، جو کم کمپیوٹنگ پاور کے ساتھ چل سکتا ہے –TechCrunch کے مطابق، اسے چلانے کے لیے ایک GPU ہی درکار ہوگا – اس کے باوجود اس نے متعدد بینچ مارکس میں گوگل کے Gemini-2.5-Flash-Thinking-0520 اور OpenAI کے o3-mini کو نمایاں طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اوپن ویٹس کی حکمت عملی نہ صرف جدید AI کی رسائی کو جمہوری بناتی ہے بلکہ یہ اس عام تاثر کو بھی چیلنج کرتی ہے کے صرف بڑے پیمانے پر کمپیوٹنگ سرمایہ کاری ہی اعلیٰ درجے کی AI کارکردگی پیدا کر سکتی ہے۔
اوپن سورس حکمت عملی ڈیپ سیک کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ یہ نہ صرف جدت کو فروغ دیتی ہے بلکہ اس کے ممکنہ صارفین کے حلقے کو بھی وسعت دیتی ہے۔ اپنے ماڈل ویٹس کو اوپن سورس کرنے کی وجہ سے ڈیپ سیک ڈویلپرز اور محققین کو ماڈل کو آزادانہ طور پر استعمال، ترمیم اور تقسیم کرنے کی اجازت دیتا ہے، اس طرح کمیونٹی کی شرکت اور شراکت کو فروغ ملتا ہے۔ اوپن سورس کا یہ ماڈل نہ صرف AI ٹکنالوجی میں ترقی کو تیز کرتا ہے بلکہ تنظیموں اور افراد کی ایک بڑی تعداد کو اس سے فائدہ اٹھانے کے قابل بناتا ہے۔
R1-0528 کا لائٹ ورژن AI ٹیکنالوجی کو مزید جمہوری بناتا ہے۔ اسے کم کمپیوٹنگ وسائل پر چلانے کے قابل بنا کر، ڈیپ سیک تنظیموں اور افراد کی ایک بڑی تعداد کے لیے جدید AI ماڈلز تک رسائی اور استعمال کو ممکن بنا رہا ہے۔ یہ ان تنظیموں اور افراد کے لیے خاص طور پر اہم ہے جن کے وسائل محدود ہیں، کیونکہ اب وہ AI ٹیکنالوجی کو مسائل حل کرنے اور قدر پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، وہ بھی بغیر کسی بھاری سرمایہ کاری کے۔
ڈیپ سیک کی اوپن سورس حکمت عملی نے پوری AI مارکیٹ پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اس حکمت عملی نے روایتی کلوزڈ سورس ماڈل کو چیلنج کیا ہے اور اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کے اوپن سورس تعاون اختراع کو فروغ دے سکتا ہے اور ٹیکنالوجی میں ترقی کو تیز کر سکتا ہے۔ AI کمپنیوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد نے اوپن سورس کے فوائد کو تسلیم کرنا شرو کر دیا ہے اور اسی طرح کی حکمت عملیوں کو اپنانا شروع کر دیا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کے اس رجحان سے AI ٹیکنالوجی کی ترقی کی رفتار تیز ہو گی اور اس کے تمام صنعتوں میں اس کے اطلاق میں مزید توسیع ہو گی۔
مسابقتی منظر نامہ: چین میں AI کا عروج
R1-0528 میں کیا جانے والا اپ گریڈ اس وقت سامنے آیا ہے جب چین کی بڑی ٹیک کمپنیوں کے مابین سخت مقابلہ چل رہا ہے۔ علی بابا کے Qwen 3 اور بیدو کے Ernie 4.5 اور X1 ماڈلز کو بھی حالیہ مہینوں میں جاری کیا گیا ہے، اور یہ تمام ماڈلز تیزی سے تیار ہونے والے AI شعبے میں بالادستی کے لیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ڈیپ سیک کی جانب سے پیش کیے جانے والے بینچ مارک کے نتائج سے پتا چلتا ہے کے R1-0528 اب علی بابا کے Qwen 3 سے سبقت لے گیا ہے اور اوپن اے آئی اور گوگل کے بہترین ماڈلز کی کارکردگی سے میل کھا رہا ہے۔
صنعت کے مبصرین ڈیپ سیک کے R2 ماڈل کے متوقع اجرا پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، جسے ابتدا میں مئی میں جاری متوقع تھا۔ کمپنی کی جانب سے مسلسل کی جانے والی پیش رفت، جس میں گزشتہ ماہ جاری کیا جانے والا اوپن سورس Prover-V2 ماہر ماڈل بھی شامل ہے، اس بات کا مظہر ہے کے اس میں عالمی AI جدت میں پیش پیش رہنے کی کس قدر خواہش موجود ہے۔
یہ بات بھی واضح ہے کے ڈیپ سیک کو جن مشکلات کا سامنا ہے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اوپن اے آئی اور گوگل جیسے صنعتی اداروں کو فنڈنگ، ٹیلنٹ اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بے پناہ فوائد حاصل ہیں۔ ڈیپ سیک کو مسابقت میں سبقت حاصل کرنے کے لیے تحقیق اور ترقی میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے کے ساتھ اپنے ماڈلز کو مسلسل اختراعات اور ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
چین میں AI کا عروج عالمی AI کے مسابقتی منظر نامے کو تبدیل کر رہا ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے AI ٹیکنالوجی کے لیے کی جانے والی معاونت، اور AI کے شعبے میں چینی ٹیک کمپنیوں کی جانب سے کی جانے والی بھاری سرمایہ کاری مل کر چین میں AI کی ترقی کے لیے ایک مضبوط تحریک فراہم کر رہی ہے۔ چین کی جانب سے AI ٹیکنالوجی میں مسلسل ترقی کے ساتھ، چین کے عالمی AI شعبے میں رہنماؤں میں سے ایک بننے کی امید ہے۔
چین کی مصنوعی ذہانت کمپنیوں کے مسابقتی فوائد
چین کی AI کمپنیاں، جیسا کے ڈیپ سیک، اوپن سورس حکمت عملی، تکنیکی اختراعات اور حکومت کی جانب سے ملنے والی بھرپور معاونت کے امتزاج کے ذریعے عالمی مارکیٹ میں نمایاں پیش رفت کر رہی ہیں۔ اوپن سورس حکمت عملی تکنیکی رکاوٹ کو کم کرتی ہے، اور کمیونٹی کی وسیع پیمانے شرکت اور سرعت سے جدت طرازی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اسی وقت، چینی حکومت کی جانب سے AI صنعت میں کی جانے والی اسٹریٹجک سرمایہ کاری اور پالیسی سپورٹ ان کمپنیوں کو مالیاتی تحفظ اور ترقی کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
اس کے علاوہ، چین کے پاس ڈیٹا کے وسیع وسائل موجود ہیں جو AI ماڈلز کی ٹریننگ کے لیے ایک منفرد فائدہ فراہم کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ڈیٹا ماڈلز کو زیادہ پیچیدہ پیٹرن سیکھنے اور درستگی اور کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کے چین کی AI کمپنیاں بعض شعبوں میں مغربی اداروں سے مقابلہ کرنے کے قابل ہیں۔
ڈیپ سیک R1-0528 کی حدود
اگرچہ ڈیپ سیک R1-0528 نے متعدد بینچ مارکس میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن کسی بھی AI ماڈل کی حدود کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، جب کے یہ ماڈل بعض قسم کے تخمینی کاموں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن یہ بعض دیگر قسم کے کاموں میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتا۔ مزید برآں، یہ ماڈل خصوصاً جب اسے غیر مانوس مواد سے پالا پڑتا ہے تو غلط یا گمراہ کن معلومات پیدا کر سکتا ہے۔
ان حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیپ سیک R1-0528 یا کسی بھی دیگر AI ماڈل کا استعمال کرتے وقت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ اس کی مناسب توثیق اور جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔ AI ماڈل کی جانب سے پیدا کیے جانے والے نتائج پر اندھا دھند اعتماد نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اسے ہمیشہ ایک معاون ٹول کے طور پر دیکھنا چاہیے، نہ کے پوری طرح سے ان پر انحصار کیا جانا چاہیے۔
عالمی AI ریس کا ایک نیا مرحلہ
ڈیپ سیک کے R1-0528 کی جانب سے مغربی اداروں کے درمیان فرق کو کم کرنے کے ساتھ ہی عالمی AI ریس ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے – ایک ایسا مرحلہ جس میں اوپن سورس حکمت عملی، لاگت کی بچت اور سرعت سے تکنیکی پیش رفت ہوش مندانہ انداز میں مصنوعی ذہانت کے امکانات کی حدود کو نئے سرے سے متعین کر رہی ہے۔
اس مسابقتی منظر نامے میں صرف تکنیکی صلاحیت ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ جدت کے طریقے اور مارکیٹ کی حکمت عملی بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہیں۔ ڈیپ سیک کی اوپن سورس حکمت عملی اس کی عمدہ مثال ہے، جس کی بدولت نہ صرف AI ٹیکنالوجی جمہوری ہو رہی ہے، بلکہ کمیونٹی کی شرکت اور تعاون کو بھی فروغ مل رہا ہے، جس کی بدولت اس شعبے میں تکنیکی ترقی کی رفتار مزید تیز ہو گئی ہے۔
اسی دوران، لاگت کی بچت بھی پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہوتی جا رہی ہے۔ AI ٹیکنالوجی کی مقبولیت کے ساتھ، تنظیموں اور افراد کو کم لاگت پر AI ماڈلز تک رسائی حاصل کرنے اور انہیں استعمال کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ ڈیپ سیک کا R1-0528 کالائٹ ورژن ان ضروریات کو مکمل کر رہا ہے، اس کی وجہ سے AI ٹیکنالوجی کی普及ی اور اطلاقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بلاشبہ، تکنیکی ترقی اب بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہی ہے۔ ڈیپ سیک اور دیگر AI کمپنیاں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے، لاگت کم کرنے اور ایپلی کیشنز کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لیے اپنے ماڈلز میں مسلسل اختراعات اور ان میں بہتری لا رہی ہیں۔ اس طرح کی مسلسل تکنیکی ترقی AI ٹیکنالوجی کی ترقی کو مہمیز دے گی اور مختلف صنعتوں کے لیے جدت اور ترقی کے مزید مواقع پیدا کرے گی۔
AI ٹیکنالوجیز کا مستقبل
مستقل مزاجی کے ساتھ، AI ٹیکنالوجی چند اہم سمتوں میں مسلسل ترقی کرتی رہے گی:
- زیادہ طاقتور ماڈلز: AI ماڈلز مزید طاقتور اور پیچیدہ ہوں گے، جو کاموں کی ایک وسیع رینج کو ہینڈل کرنے اور زیادہ درست نتائج فراہم کرنے کے قابل ہوں گے۔
- زیادہ موثر الگورتھم: AI الگورتھم زیادہ موثر ہوں گے، جو کم کمپیوٹنگ وسائل پر چلنے کے قابل ہوں گے، اس وجہ سے ان کی लागत کم کرنے کے ساتھ 可访问性میںاضافہکیاجاسکےگا۔
- وسیع اطلاقات: AI ٹیکنالوجی کو مختلف صنعتوں میں استعمال کیا جائے گا، جو صحت کی دیکھ بھال سے لے کر مالیاتی خدمات تک اور مینوفیکچرنگ اور ریٹیل까지 फैलाهواهوگا۔
- مضبوط اخلاقی تحفظات: AI ٹیکنالوجی کی مقبولیت کے ساتھ، AI اخلاقیات پر توجہ بڑھتی جائے گی، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کے AI ٹیکنالوجی کا استعمال اخلاقی ضوابط اور سماجی ذمہ داری کے مطابق ہو۔
AI ٹیکنالوجی کی صحت مند ترقی کو یقینی بنانا
AI ٹیکنالوجی کی صحت مند ترقی کو یقینی بنانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
- اوپن سورس تعاون को فروغ: AI کمیونٹی ਦੇاوپن سورس تعاون کو فروغ دیا جائے، تاکہ اس شعبے میں تکنیکی ترقی کی رفتار تیز کی جا سکے ᱟᱣAI ٹكنولوجی کی可利用性كو یقینی بنایاجا سکے۔
- تعلیم اور تربیت میں سرمایہ کاری: AI سے متعلق शिक्षा और प्रशिक्षण میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی。 اس اقدام کا مقصد ایسے افراد کو تیار کرنا ہے جو AI کے شعبے میں माहિર ہوں اور जनता میں AI ٹیکنالوجی کے بارے میں آگاہی بڑھائیں۔
- **اخلاقی قواعد و ضوابط وضع کرنا:**AI کے اخلاقی قواعد و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت ہوگی جو AI ٹیکنالوجی کی تیاری اور استعمال کو اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کے دائرے میں رکھنے میں مدد فراہم کریں。
- **نگرانی کو مضبوط کرنا:**AI ٹیکنالوجی پر نگرانی بڑھانے کی ضرورت ہوگی تاکہ اس کے غلط استعمال اور زیادتیوں को रोکا जासके اور عوام کے مفادات کا تحفظ کیا जा सके।
درج بالا اقدامات کو اپنا کر اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا है کہ AI ٹیکنالوجی معاشرے کو زیادہ से زیاد فائدہ پہنچا سکے तथा संभावित خطرات کو कम से کم किया जा सके۔ چینی AI کمپنیوں کا عروج عالمی AI صنعت کے لیے نئی توانائی اور مواقع لے کر آیا ہے، جس پر ہم کو پوری توجہ اور گہرائی سے تحقیق کرنی چاہیے۔
کلیدی نکات:
- ڈیپ سیک (DeepSeek) کے فلیگ شپ لینگویج ماڈل R1 میں بڑی اپ گریڈ متعارف کرائی گئی ہے۔
- DeepSeek-R1-0528 ماڈل کو OpenAI کے o3 اور گوگل کے Gemini 2.5 Pro کے مد مقابل لانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
- نئے ورژن میں استدلالی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
- R1-0528 ماڈل نے مشکل استدلالی کاموں میں درستگی کی شرح میں 70% سے 87.5% تک بہتری دکھائی ہے۔
- ماڈل کی جانب سے غلط یا گمراہ کن معلومات پیدا کرنے کے واقعات میں 50% تک کمی واقع हुईहै।
- ڈیپ سیک حساب، کوڈنگ، اور عمومی منطق میں صلاحیتوں میں بہتری پر زور دیتا ہے۔
- اوپن اے آئی اور گوگل کے برخلاف، ڈیپ سیک اوپن سورس طریقہ کار پر کاربند ہے۔
- R1-0528 ماڈل 685 بلین پیرامیٹرز کا حامل ہے اور MIT کے لائسنس کے تحت استعمال کے لیے دستیاب ہے۔
- اوپن سورس حکمت عملی جدید AI تک رسائی کو جمہوری بناتی ہے۔
- ڈیپ سیک نے R1-0528 کا ایک لائٹ ورژن بھی متعارف کرایا ہے۔
- چین کی AI کمپنیاں اوپن سورس حکمت عملی، تکنیکی اختراعات اور حکومتی معاونت کے ذریعے عالمی مارکیٹ में ترقی کررہی ہیں۔
- چین کے پاس ڈیٹا केवाفر ोताہے، جو AI ماڈلز कीट्रेनिंगकेलिएबहुतअच्छाहै।
- AI ماڈل کی حدود को سمجھना önemlidir।
- R1-0528 मॉडल कुछ खास तर्कों में बेहतर है।
- AI तकनीक पर निगरानी बढ़ानी होगी।